لل دید
![]() |
| لل دید |
کشمیر قدیم زمانے ہی سے ریشیوں ، سنتوں اورصوفیوں کا مسکن رہا ہے ان ہی برزگ ہستیوں میں ایک عظیم خاتون بھی گزری ہیں جنہیں پیار اور عقیدت سے لوگ 'لل دید' کے نام سے یاد کرتے ہیں لل دید کی زندگی کے حالات کے بارے میں اگرچہ وثوق کے ساتھ بہت کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن اتنا تو بہرحال یقینی ہے کہ وہ چودھویں صدی کے وسط میں سرینگر سے چھہ مییل دور جنوب مشرق کی طرف واقع چھوٹی عمر ہی میں ان کی شادی پانپور کے ایک پنڈت گھرانے میں کردی۔سُسرال میں ان کا نام پدماوتی رکھا گیا
سُسرال میں ساس اورشوہر کے بُرے سلوک کی وجہ سے لل دید کی ازواجی زندگی بہت ہی تلخ گزری۔ اس ضمن میں کئی واقعات کشمیر کی لوک روایت کا حصہ بن چکے ہیں کہاجاتا ہے کہ ایک بارلل دید کےسُسرال میں بڑے پیمانے پرایک دعوت ہوئی دوسرے رازحسبِ معمول جب لل دید گھاٹ پر پانی بھرنے گئی تو سہیلیوں نے ہنستے ہنستے پوچھا ک کل تم نے خوب پیٹ بھر کراچھے اچھے پکوان کھائے ہوں گے۔ اس پر لل دید کے مٗنہ سے بے ساختہ ایک شعر بکلا ،جوکشمیر زبان میں ایک ضربُ المثل کی حیثیت اختیار کر چکا ہے اس شعر کے معنی ہیں "مینڈھا پکے یا بکرا، لل کی قسمت میں تو وہی بٹا ہے " لل دید کی ساس کھانا پرستے وقت اٌن کے برتن میں ایک بٹا رکھتی تھی۔ تاکہ دیکھنے میں چاول کا برتن خوب بھرا ہوا لگے ۔لل دید نہائت صابر تھیں وہ چاول کھا کربٹا دھو کرایک طرف رکھ دیتی تھیں تاکہ اُن کی ساس کو دوسرا پتھر ڈھونڈنے کی زحمت نہ اٹھانا پڑے ۔کسی طرح سے لل دید کا یہ شعر اٗن کے سُسر کے کانوں تک بھی پہنچا تو انہوں نے اس کی تخقیق کی اور لل دید کا بیان صحیح ثابت ہوا۔لل دید نہایت صبر سے سسرال والوں کی زیادتیاں برداشت کرتی رہیں ۔لیکن آخر کاراُن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اورانہوں نے گھریلوزندگی کو خیر باد کہا اور ایک مست قلندر کی طرح جگہ جگہ گھومنے لگیں۔ ایک بار وہ نیم برہنہ حالت میں کہیں جارہی تھیں کہ کہیں دور سے حضرتِ امیرؒ ہمدانی آتے ہوئے دکھائی دیے۔ لل دید کو اس حالت میں حضرتِ امیرؒ کا سامنا کرنے میں شرم محسوس ہوئئ۔ وہ کہیں چھپ جانا چاہتی تھیں۔ لیکن جب آس پاس میں چُپھنے کی کوئی جگہ نہ ملی تو ایک نانبائی کی دُکان میں دہکتے ہوئے تنور میں کود پڑیں۔بے چارے نانبائی کے تو ہوش اڑا گئے ۔تھوڑی ہی دیر میں جب تنور کا ڈھکن اٹھالیا تویہ دیکھ کرسب حیران ہوئے کہ لل دید ایک خوبصورت لباس پہن کر تنورسے برآمد ہوئیں۔بعد میں جب اُن سے بارے میں پوچھاگیا توانہوں نے جواب دیا ک انہوں نے پہلی بارکسی مردِخدا کودیکھا اوراُن کے سامنے نیم برہنگی کی حالت میں چیتھڑے پہن کر جانے میں لاج آئی.لل دید اس واقعہ کے بعد کئی بارحضرت امیرؒ سے ملیں اور ان کے علاوہ حضرت شیخ نورالدیں ؒ سے بھی ملتی رہیں.دونوں برزگ لل دید کےروحانی مرتبے سے متاثر تھے
کہتے ہیں کہ جب حضرت شیخ نورالدیں ؒپیدا ہوئے تو انہوں نے اپنی ماں کا دودھ نہیں پیا۔ اسی اثناء میں لل دید کا گزر وہاں سےہوا ۔حضرت شیخ کی والدہ ان سے ملیں اوراپنی پریشانی کا ذکر کیا، لل دید نے بچے کوگود میں لیا اوراُس سےکہا "اے ننھے دنیا میں آتے ہوئے تمہیں لاج نہ آئی تو اب دودھ پینے میں کیسی شرم"۔یہ کہہ کر لل دید نے ننھے شیخ کو اپنے سینے سےلگا کر انہیں اپنا دودھ پلایا۔لل دید ایک فطری شاعرہ تھیں۔وہ کشمری زبان کی پہلی شاعرہ ہیں،جن کا کلام کشمیریوں کے اجتماعی حامظے میں محفوظ رہ کر بعد میں تحریری صورت میں منتقل ہوا۔یہ جو کلام جو"واکھ" کہلاتا ہے مرتب ہوکر کئی زبانون میں ترجمہ ہوچکا ہے ان کے اس عارفانہ کلام کو تما اہلِ کشمیر،خواہ وہ ہندوہوں یا مسلمان،امیر ہوں یا غریب، پڑھے لکھے ہوں یا اَن پڑھ ،سبھی بہت پسند کرتے ہیں ان واکھوں میں اُونچ نیچ اورذات پات کے غیر فطر بندھنوں کوتوڑنے اوراعلٰی انسانی اوراخلاقی قدروں کواپنانےکی تلقین کی گئی ہے چھ سوسال سے زیادہ مدت گزرنے کے باوجود بھی ان کے کلام کی مقبولیت میں کوئی واقع نہیں ہوئی ہےان چھ سو برسوں میں کشمیری زبان میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں ۔ بہت سے لفظ یا تومتروک ہوگئے ہیں یا ان کی صورت بدل گئی ہے بہت سارے نئے الفاظ زبان میں داخل ہوئے ہیں چنانچہ لل دید کے کلام میں پائے جانے والے بہت سے الفاظ اب عام کشمیری بولنے والے کی سمجھ میں نہیں آتے ، لیکن پھر بھی لل دید کے بہت سارے شعر اورمصرعے اب بھی کشمیرزبان می محاروں اورضربُ الامثال کے طور پر استعمال ہوتے ہیں یہ لل دید اوراُن کےکلام کی مقبولیت کا ایک بین ثبوت ہے
لل دید کو مسلمان "لل عارفہ" اورہندو "لل ایشوری" کے ناموں سے یاد کرتےہیں انہوں نے خاصی لمبی عمر پا کر بیج بہاڑہ کے مقام پر وفات پائی کشمیر کے لوگ جب کسی خاتون کی شرافت، پاکبازی، صبروتحمل اور دینداری سے متاثر ہوتے ہیں تو اُسے لل دید کے نام سے تشبہیہ دیتے ہیں یوں اس خاتون کو عظمت آج بھی لوگوں کے دلوں میں گھر کیے ہوئے ہے
1۔فرہنگ
لفظ۔۔۔۔۔۔۔معنی
ریشی۔۔۔۔عابد۔ سادھو، جوگی
سَنت۔۔پارسا۔ پرہیزگار
صوفی۔۔۔پرہیز گار،پشمینہ پوش۔ متقی
وثوق۔۔ تقین، اعتماد
وسط۔۔۔بیچ، درمیان
روایت۔۔۔حکایت،سرگزشت
ضربُ المثل۔۔۔وہ جملہ جو مثال کے طور پر بیان کیا جائے کہاوت
بے ساختہ۔۔۔بناوٹ کے بغیر، بے شوچ، فوراََ ، فی البدیہہ
بٹا ۔۔۔مسالہ پیسنے کا پتھر
لاج۔۔۔شرم،حیا، غٰیرت
متروک۔۔۔ترک کیا ہوا، چھوڑا ہوا
۔لل دید کس وجہ سے مشہورہے؟
جواب: لل دید اپنی شرافت،پاکبازی،صبروتحمل،دینداری اورخاص کر اپنی شاعری کی وجہ سے مشہور ہے
- ۔۔لل دید کے زمانے میں کون برزگ حضرت گذرے ہیں؟
جواب: لل دید کے زمانے میں حضرت نورالدین ریشیؒ اور حضرت امیر کبیر میر سعید ہمدانی جیسے دوعظیم ہستیاں گذرے ہیں
- حضرت شیخ نورالدین کو دودھ پلانے وقت لل دید نے کیا کہا ؟
جواب: حضرت شیخ نورالدینؒ کودودھ پلانے وقت لل دید نےیہ کہا کہ " اے پیارے ننھے جب دنیا میں آتے ہوئے تمہیں لاج نہ آئی تو اب دودھ پینے میں کیسی شرم " یہ کہہ کر لل دید نے ننھے شیخ کو اپنے سینے سے لگا کر انہیں اپنا دودھ پلایا
- لل دید کے واکھوں میں کن باتوں کی تلقین کی گئی ہے؟
جواب: لل دید کے واکھوں میں اُونچ نیچ اورذات پات کے غیر فطری بندھوں کو توڑنے اور اعلٰی انسانی اور اخلاقی قدروں کو اپنانے کی تلقین کی گئی ہے
- لل دید کو کِن کِن ناموں سے پکارا جاتاہے؟
جواب: لل دید کومسلمان"لل عارفہ" اور ہندو "لل ایشوری " کے ناموں سے یاد کرتے ہیں
3۔۔۔غور کرنے کی بات:
اس سبق میں " نیم برہنہ" کی ترکیب استعمال ہوئی ہے اُردومیں ایسے بہت سارے الفاظ ہیں جن کے آگے " نیم " جوڑے سے اُن کے معنی بدل جاتے ہیں یہ ترکیب دیکھے
نیم شب۔۔۔نیم باز، نیم عریان،نیم حکیم، نیم روز، نیم کش، نیم بسمل


0 تبصرے