12 TH URDU NOTES/BAHARISTANI URDU NOTES/JK BOSE 12TH URDU NOTE/12 TH URDU NOTES/BAHARISTANI URDU NOTES/JK BOSE 12TH URDU NOTE/مرزا دبیر شہادت امام حسین علیہ السلام

   مرزا دبیرؔ شہادت حضرت امام حسین علیہ السلام

مرزا دبیرؔ شہادت حضرت امام حسین علیہ السلام

خاکِ شفا سروں پہ اڑانے چلے

خونِ جگر سے سبحئہ یاقوت تھی پلک

پہنچے تھے تافلک کہ لززتے لگے ملک

اوریہ فغاں زمیں سے گئی آسمان تلک

فریاد، گوشوارہ عرشِ خدا گرا

لوخاک پرستارہ خیرالنساء گرا

خاکِ شفا: شفا عت والی مٹی،خونِ جگر: جگر کا خون،سبحئہ یاقوت:یاقوت کی تسبیح،فلک:آسمان،لززنا: تھرتھرانا،فغاں: نالہ یا آواز،تلک: تک،گوشوارہ:بالا کان کا آویزہ،خیرالنساء:عورتوں میں اونچا نصب والی عورت

مرثیہ کے اِس بند میں جومرزا دبیرؔ نے امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی شان میں لکھی ہے فرماتے ہیں جوں ہی زمین سے آسمان کی طرف امام کی شہادت کی خبرپہنچی تو فرشتےاپنے اپنے سروں پرکربلا کی بابرکت مٹی ملنے لگے اور وہ جون جگرکے آنسوؤں بہانے لگے اوریہ آنسوؤں یاقوت کی تسبیح کے دانے کی طرف سُرخ دکھائی دینے لگے۔فریاد کاعالم انتاخوفناک تھا کہ اللہ تعالٰی کےعرش کابھی ایک موتی زمیں پر تشریف لایا اور وہ بھی جیسے کہ کہہ رہا تھا کہ ہاے افسوس حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا کے بیٹا کی شہادت ہوگی اور وہ تارہ زمیں پر شہادت کی وجہ سے تشریف لایا ہے

گرتے ہی خاک پرشہِ دیں کوغش آگیا

پھر بھی نہ کوئی پیاسے کو پانی پلاگیا

خنجر لگا گیا کوئی نیزہ لگا گیا

کھولی جو آنکھ شہ نے جگر تھرا تھرا گیا

سرکانٹنے کو پاؤں کسی کا نہ بڑھ سکا

جُز رنگ رزد اورکوئی منہ نہ چڑھ سکا

خاک:مٹی،شہ:بادشاہ،دیں:مذہب ،غش: بے ہوش،جگر: دل

مرزا دبیرؔفرماتے ہیں کہ جب امام حسین علیہ السلام کاجسمِ مبارک شہادت کی دجہ سے زمین پر تشریف لانے لگا آپ علیہ السلام بے ہوش ہوگئےہردشمن امام کو کوئی خنجر تو کوئی نیزہ سے مارکرنے لگا مگرجوں ہی اس بادشاہ امام کوہوش آیا کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ آپ علیہ السلام کے سرِمبارک پر وارکرے۔امام کا چہرہ مبارک سُرخ ہوگیا جس کا رعب دشمنوں پر اتنا پڑا کہ کسی کو آگے بڑھ کر وار کرنےکی ہمت نہ ہوئی

پرآہ آہ شِمر نے بڑھ کر غضب کیا

سینہ پہ موزہ ، حلق پر خنجر کو رکھ دیا

چلاتے آئے قبر سے محبوب کبریا

باہیں گلے میں ڈال دیں خنجر پکڑ لیا

زہرا پکاری یہ دلِ حیدر کا چین ہے

آہ:افسوس،غضب:ظلم،محبوب:پیارا ،چین: قرار۔حلق:گردن،موزہ:ایک قسم کی پاؤں میں پہننے کی سُوت

تشریح

مرزا دبیرؔ مرثیہ کے اِس بند میں فرماتے ہیں کہ جب شمر لعین آگے بڑھ گئے اور امام کے سینہ مبارک پر اپنا ناپاک قدم رکھا امام کی گردن کی طرف خنجر رکھ دیاایسا محسوس ہونے لگا جیسے حضرتﷺ اکرم اپنے قبرِ شریف سے باہر شریف لائے اوراما م کو اپنے باہوں میں لے گیا اور دشمن کے خنجر کو پکڑ لیا حضرت فاطہمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا جیسے کہہ رہی تھی کہ امام حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دل کا چین ہے یہ میرا حسین ہے میں اس کی ماںحضرت فاطہمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا ہوں

اے ، شمر مصطفے کی رسالت کا واسطہ

اے شمر، مرتضٰی کی امامت کا واسطہ

اے شمر اہل بیت کی حرمت کا واسطہ

اے شمر، کبریا کی عدالت کا واسطہ

صدقہ نبی کی روح کا حیدر کی گور کا

تو گل نہ کر چراغ پیمبر کی گور کا

رسالت: نبوت،حرمت: پاکی،گور: قبر،گل:بجھانا

مرثیہ کے اس بنددبیرؔ ارشاد فرماتے ہیں کہ اے شمرِلعین تم کو قسم ہے حضرتِ رسول اکرمﷺ کی نبوت کا، حضرتِ علی رضی اللہ تعالی عنہ کی امامت کا ،اہل بیت کی پاک دامنی کا،تجھے اس سے بڑھ کر اللہ کی بڑھائی کا ، تجھے اور تو اور نبی ﷺ کی روحِ مبارک اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک کی قسم،تم حضرتِ امام حسین علیہ السلام کو شہید نہ کرکیوںکہ امام حضرتِ رسول اکرم کے خاندان کا ایک روشن چراغ ہیں

روشن اسی نواسے سے نانا کا نام ہے

یہ سر پرستِ عزتِ خیرالانام ہے

خنجر نہ پھیر ، پیاس سے یہ خود تمام ہے

آخر خدا ہے حشر ہے اور انتقام ہے

للہ خانداں کو نہ میرے تباہ کر

تو اس کے ننھے بچوں کے اوپر نگاہ کر

نواسہ: حضرتِ رسول اکرم ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ کا بیٹا یعنی امام حسین علیہ السلام،سرپرست:مددگار،خیرالانام:حضرتِ رسول اکرم ﷺ کا ایک صفاتی نام ہے،انتقام: بدلہ ،للہ: خدا کے لیے

دبیرؔ فرماتے ہیں سُن شمر اما م کی بدولت حضرتِ رسولِ اکرم کا نامی مبارک بہت روش ہے یہ حضرتِ رسولِ اکرم ﷺ کے خاندان کا آج سرپرست اعلٰی ہے اے شمر خنجر سے امام پر وار نہ کر ۔اے ظالم امام تو پہلےہی پانی کی پیاس سے نڈھال ہے اے شمر کیا آپ کو خدا کا خوف نہیں۔ کیوں ہم سب کومرکے پھر سے زندہ نہیں ہونا ہے اور میدان حشر میں اپنے اپنے اعمال کا حساب کتاب نہیں دینا ہےتم اے شمر نواسہ رسولﷺ پر وار نہ کر کیوں کہ اس کے بہت چھوٹے چھوٹے بچے ہیں

چلائی در سے زینب مضطر بھی وا اخا

اماں تو آئیں میں بھی نکل آؤں ننگے پا

بولی سکینہ روک لوں میں خنجر جِفا

باقر پکارا روکے میں سوجان سےفدا

شاید یہ ہاتھ تھام لے معصوم جان کر

دادا ترے گلے پہ گلا رکھ دوں آن کر

چلائی:روئی،مضطر: بےقرار،اخا: عربی زبان کا لفظ جس کے معنی بھائی کے ہیں،جفا:ظلم وستم،آن:لمحہ

حضرتِ زینت رضی اللہ عنھا بولی اے بھائی جان میں نے امان جان کو یہاں آتے ہوئے دیکھا اور میں بے بھی فکری میں بغیر سر پر دوپٹا اوڑے بغیر یہاں پر آئی ہوں حضرت سکینہ رضی اللہ عنھا بولی کوئی ہے جو اس ظالم شمر کا خنجر وار کرنے سے روکے ۔یہ حالت دیکھ کر ننھا باقررضی اللہ عنھا روکے بولنےلگا داداجان میں آُپ پر اپنی سو جانی بھی قربان کروں گا میں اپنی گردن آپ کی گردن کے ساتھ رکھوں گا شائد شمر بچہ سمجھ کروار کرنے سے رک جائے

مُڑ مُڑ کے زیرِ تیغ پہ بولے شہِ اُمم

زینب تجھے غریبی شبیر کی قسم

بٹھلا مرے یتیموں کو خیمہ میں ایک دم

بٹتا ہے دھیانِ محوِ جمالِ خدا ہیں ہم

بچوں کو لے کے ڈیوڑھی سے زینب تو ہٹ گئی

یاں بوسہ گاہِ احمدِ مختار کٹ گئ

تیغ:تلوار،شہِ اُمم:اُمت کا بادشاہ،ڈیوڑھی: دہلیز،احمد مختار: حضرت رسول اکرم ﷺ کا ایک صفاتی نام

مرزا دبیرؔ اس مرثیہ کے بند میں ارشاد فرماتے ہیں کہ جب امام حسین علیہ السلام کا سرِ مبارک شمر کی تلوار کے نیچے آگیااور وہ باربار حضرتِ زینت رضی اللہ تعالٰی عنھا کی طرف دیکھ کر کہہ رہےتھے کہ آپ بچوں کو خیمہ کے اندر لے جا ئیے کیوں میں اس شہادت ہونےکے وقت اپنے معبود کا دیدار کر رہاہوا تمہارے رونے سے میرا دھیان بٹھک جاتا ہےتب جوں ہی زینب رضی اللہ تعالٰی عنھا بچوں کوخیمہ کے اندر لے گئیؐں تو امام حسین کی گردن مبادک کٹ گئی یہ وہی گردن مبارک تھی جسے امام الانبیاء ﷺ بوسہ دیا کرتا تھا

لو مومنو!بپا ہوا محشر بکا کرو

تن سےجدا ہوا سرِ سرور بکا ہوا

لاشہ تڑپ رہاہے زمین پر بکا کرو

نیزے پہ چڑھتا ہے سرِ اطہر بکا کرو

بجوائیں نوبتیں عُمرِ و روسیا ہ

تکبیر تین بار کہی فرقِ شاہ نے

بپا: واقع ہونا، بکا:رونا پیٹنا، گریہ زاری،سُرور: خوشی،فرحت، اطہر: پاک،روسیاہ: گنہگار،محشر:مرنے کے بعد حساب کتا ب کا دن

اس مرثیہ کے بند میں دبیرؔ ارشاد فرماتے ہیں کہ اے مومنوں سنو امام حسین علیہ السلام کاسرِ مبارک جسم سےجُدا ہوگیا ہے یہ دن محشر کے دن سے کم نہیں آپ اس واقع پر آہ وزاری کروں۔ امام کا لاشہ مبارک زمیں پر تڑپ رہا ہےاور امام کا سرِ مبارک دشمنان اسلام اپنے تلوار پر اُٹھائے ہوئے ہیں بدبخت عمرخوشیاں منارہا ہے دوسری طرف امام نے تین بار تکبیر کہہ کر جامِ شہادت نوش کیا

بس اے دبیرؔ بس کہ ملک کر رہے ہیں بین

جبریل دے رہے ہیں ندایوں بشوروشین

آگاہ ہو کہ قتل ہوئے شاہ مشریقین

عابد یتیم ہوگئے مارے گئے حسین

کھیتی علی کی لٹ گئی بستی اجڑ گئی

پردیس میں حسین سے زینب بچھڑ گئی

ملک:فرشتے،ندا: آواز،شوروشین:شوروغل،بین: ماتم

مرثیہ کے اس آخری بند میں دبیرّخود سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ اے دبیرؔ اب تو آگے کا حال بیان نہ کرنا کیوںکہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر ،آسمان پر بھی فرشتے ماتم کررہے ہیں اورفرشتوں کا سردار حضرتِ جبریل علیہ السلام خود آہ وبکا کررہا ہے او کہہ رہے کہ دومشرقوں کا سردار شہید ہوگیا ہےحضرت عابد رضی اللہ عنہ یتیم ہوگے ہیں اس طرح حضرتِ علی کرم اللہ تعالٰی عنہ کا خاندان بُری طرح سے لُٹ چکا ہےاب قیامت تک امام حیسن علیہ السلام حضرتِ زینب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جدا ہوگئے ہیں

1۔۔فرہنگ

لفظ۔۔۔۔۔۔معنی

اخا۔۔۔۔۔۔خیمہ/بھائی

ملک۔۔۔۔فرشتے

حرمت۔۔۔عزت ،آبرو

انتقام۔۔۔بدلہ

ندا۔۔۔۔آواز

سبحہ یا قوت۔۔۔۔ یاقوت کی تسبیح

گوشوارہ۔۔۔ کان کا آویزہ، بالا

خنجر۔۔۔۔ کٹار

غش۔۔۔۔۔بے ہوش ہونا

حشر۔۔۔ قیامت کا دن

ڈیوڑھی۔۔۔دہلیز،دروازہ

شوو شین۔۔۔۔۔شوروغل

2۔۔مشق

1۔۔مرزا دبیرؔ کے حالاتِ زندگی پرنوٹ لکھیےِ؟

جواب

حالاتِ زندگی:

مرزا دبیر کی پیدائش 1803ء میں دہلی میں ہوئی۔ آپ کا اصلی نام مرزا سلامت علی تھا۔اور تخلص دبیرؔ تھا۔آپ کے والد صاحب کا نام مرزا غلام حسین تھا بچپن کے ایام میں اپنے والد صاحب کے ساتھ لکھنوچلے آئے۔پڑھنے کے ساتھ اچھا لگاو تھا۔ ابتدائی تعلیم عربی اور فارسی زبانوں میں حاصل کی۔شاعری کا ذوق بچپن ہی سے تھا میر ضمیر کی شاگردی اختیار کی۔غدر کے زمانے تک مرزا دبیرؔلکھنو میں مقیم رہے البتہ آزادی کی پہلی لڑائی 1857ء کے بعد مرشد آباد اور پٹنہ چلے آئے آنکھوں کاعلاج کرنےکے کیے کلکتہ چلے گئے پھر لکھنو آگئے اور یہی لکھنو میں آپ کا انتقال مارچ 1875ء کو ہوا۔اوراپنے ہی مکان میں سپردِخاک کیے گئے

2۔۔دبیرؔ کی مرثیہ نگاری کی خصوصیات قلمبند کیجیے ؟

جواب:

مرزادبیرؔ نےیوں تو اپنی ساری مرثیہ گوئی میں گزاری۔اوراس فن کے بڑے اُستاد ہوئے۔ آپ کے کلام میں بھی وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جو میرانیسؔ کے یہاں پائی جاتی ہیں۔دبیرؔ کے مرثیے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پرشکوہ الفاظ نئی تشبیہات اور تازہ مضامیں کے دلدارہ ہیں ان کے مرثیوں میں آیات قرآنی اوراحادیث وغیرہ کی بہت کثرت ہے لیکن یہ ماننا پڑتا ہے اُنھوں نے اُردو میں عربی کے پیوند اور جوڑ بڑی خوبی سے لگائے ہیں ڈاکٹر سید ناطر حسین زیدی دبیر کے متعلق لکھتے ہیں
"دبیر کے کلام کا خاص جوہر زورِ بیان، ،شوکت الفاظ، بلند تخیل ،ایجاز مضامین اور صنائع کااستعمال ہے تخیل کی بلند پروازی،علمی اصطلاحات ،عربی فقروں کی تضمین اور ایجاز مضامین کے زور میں وہ بے مثل ہیں یہ ان کی خاص مملکت ہے"

3۔۔مرثیہ کے تیسرے اور چوتھۓ بند کی تشریح کیجیے؟

جواب:

تیسرے بند کی تشریح:

پرآہ آہ شِمر نے بڑھ کر غضب کیا

سینہ پہ موزہ ، حلق پر خنجر کو رکھ دیا

چلاتے آئے قبر سے محبوب کبریا

باہیں گلے میں ڈال دیں خنجر پکڑ لیا

زہرا پکاری یہ دلِ حیدر کا چین ہے

آہ:افسوس،غضب:ظلم،محبوب:پیارا،چین: قرار۔حلق:گردن،موزہ:ایک قسم کی پاؤں میں پہننے کی سُوت

مرزا دبیرؔ مرثیہ کے اِس بند میں فرماتے ہیں کہ جب شمر لعین آگے بڑھ گئے اور امام کے سینہ مبارک پر اپنا ناپاک قدم رکھا امام کی گردن کی طرف خنجر رکھ دیاایسا محسوس ہونے لگا جیسے حضرتﷺ اکرم اپنے قبرِ شریف سے باہر شریف لائے اوراما م کو اپنے باہوں میں لے گیا اور دشمن کے خنجر کو پکڑ لیا حضرت فاطہمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا جیسے کہہ رہی تھی کہ امام حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دل کا چین ہے یہ میرا حسین ہے میں اس کی ماںحضرت فاطہمہ رضی اللہتعالٰی عنھا ہوں

چھوتھے بند کی تشریح:

اے ، شمر مصطفے کی رسالت کا واسطہ

اے شمر، مرتضٰی کی امامت کا واسطہ

اے شمر اہل بیت کی حرمت کا واسطہ

اے شمر، کبریا کی عدالت کا واسطہ

صدقہ نبی کی روح کا حیدر کی گور کا

تو گل نہ کر چراغ پیمبر کی گور کا

رسالت:نبوت،حرمت:پاکی،گور: قبر،گل:بجھانا

مرثیہ کے اس بنددبیرؔ ارشاد فرماتے ہیں کہ اے شمرِلعین تم کو قسم ہے حضرتِ رسول اکرمﷺ کی نبوت کا، حضرتِ علی رضی اللہ تعالی عنہ کی امامت کا ،اہل بیت کی پاک دامنی کا،تجھے اس سے بڑھ کر اللہ کی بڑھائی کا ، تجھے اور تو اور نبی ﷺ کی روحِ مبارک اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی قبر مبارک کی قسم،تم حضرتِ امام حسین علیہ السلام کو شہید نہ کرکیوںکہ امام حضرتِ رسول اکرم کے خاندان کا ایک روشن چراغ ہیں

4۔۔مرثیہ میں جن عظیم ہستیوں کے نام آئے ہیں وہ قلمند کیجیے؟

جواب:

  • حضرتِ رسولِ اکرم ﷺ
  • حضرتِ جبریل علیہ السلام
  • حضرتِ امام حسین علیہ السلام
  • حضرتِ فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا
  • حضرتِ علی کرم اللہ وجہہ رضی اللہ تعالٰی عنہ
  • حضرتِ زینب رضی اللہ تعالٰی عنھا وٖغیرہ
  • حضرتِ سکینہ رضی اللہ تعالٰی عنھا
  • حضرتِ باقر رضی اللہ تعالٰی عنہ

5۔۔مرثیہ کو ایک بار پھر غور سے پڑھیے اور درج ذیل سوالات کے مختصر جواب لکھیے

(ا) امام حسین کی لاش زمین پرگرنے کے بعد یزیدی فوج نے اس کے ساتھ کیا سلوک کیا؟

جواب: امام حسین علیہ السلام کی جب لاشِ مبارک شہید ہونے کے بعد زمین پر تشریف لایا تو یزیدی فوج نے اس کے ساتھ بہت برا سلوک کیا یہاں تک شمرِ لعین نے سرِ مبارک کو تلوار سے اُوپر ہوا میں لٹکا یا
(ب) شمرِ لعین نےکیا کیا؟

جواب: شمرِ لعین امام حسین علیہ السلام کے سینہ مبارک پر چڑھ گئے اور تلوار گردن مبارک پر رکھ کر سرِ مبارک کوجسمِ مبارک سے جدا کرگیا اس طرح شمرِ لعین ہی نے امام عالی مقام کو شہید کیا

(پ) مرثیہ میں فاطمہ زہر کے کلمات بیان کیے گئے ہیں اُن کو نثر میں لکھیے؟

جواب:حضرتِ فاطمہ رضی اللہ تعالٰی عنھا پُکار اُٹھی شمرِ لعین امام عالی مقام کو شہید نہ کر کیوں حضرتِ علی رضی اللہ عنہ کا قرار ہے یہ میرا پیارابیٹا ہے اے شمراس امام عالی مقام کو چھوڑدےتجھے حضرتِ رسول اکرمﷺ کی رسالت کی قسم، تجھے علی کی امامت کی قسم،تجھے اہل بیت کی عزت کی قسم، تجھے اللہ کےبڑھائی کی قسم،تجھے نبی آخرزماںﷺ کی روحِ مبارک کی قسم،تو اما م کو شہید نہ کر،یہ رسول کریمﷺ کا نواسہ ہے رسول کریمﷺ کے ساتھ اس کانام بھی لیا جاتاہے اے شمرتم خنجر امام عالی مقام پر نہ چلانا کیونکہ امام کئی دنوں سےپیاسا ہےآخر تم  کو بھی خدا کے حضور میں کھڑا ہونا ہے وہاں سب کا حساب لیاجائے گا خدا کے لیے خاندان علی رضی اللہ عنہ کو تباہ نہ کرتو اس کے ننھے ننھے بچوں کی طرف نگاہ کر۔شائد تجھے ترس آجائے

(ت) مرثیہ کے اجزائے ترکیبی میں سے اس حصے میں کون سا جُز آیا ہے؟

جواب: مرثیہ کے اجزائے ترکیبی میں سے اس حصے میں شہادت کا جُز آیا ہے

(ج) مرثیہ کے اس حصے میں ہیرو کی حالتِ زار کو اپنے لفظوں میں لکھیے؟

جواب: مرثیہ کے اس حصۓ میں ہیرو یعنی امام عالی مقام کی حالت دشمنوں سے جنگ لڑتے لڑتے کافی خراب ہوگی تھی امام بہت پیاسے تھے کیوں کہ یزیدیوں نے پانی بھی بند کیا تھا شہید ہوتے وقت زینب سے کہہ رہے تھے تم بچوں کو خیمہ کے اندر لے جا اور تم آہ وبکار کرنا چھوڑ دے کیوں کہ میں محوِجمال سے اس وقت سرفراز ہورہاہوں تو آہ و بکا کرنے سے اس میرے نیک کام میں خلل نہ ڈال

(د) دبیرؔ آخری دوبندوں میں کیا کہتے ہیں؟

لو مومنو!بپا ہوا محشر بکا کرو

تن سےجدا ہوا سرِ سرور بکا ہوا

لاشہ تڑپ رہاہے زمین پر بکا کرو

نیزے پہ چڑھتا ہے سرِ اطہر بکا کرو

بجوائیں نوبتیں عُمرِ و روسیا ہ

تکبیر تین بار کہی فرقِ شاہ نے

بس اے دبیرؔ بس کہ ملک کر رہے ہیں بین

جبریل دے رہے ہیں ندایوں بشوروشین

آگاہ ہو کہ قتل ہوئے شاہ مشریقین

عابد یتیم ہوگئے مارے گئے حسین

کھیتی علی کی لٹ گئی بستی اجڑ گئی

پردیس میں حسین سے زینب بچھڑ گئی

ملک:فرشتے، ندا:آواز،شوروشین :شوروغل،بین:ماتم

بپا:واقع ہونا،بکا:رونا پیٹنا، گریہ زاری،سُرور:خوشی ۔فرحت،اطہر: پاک،روسیاہ: گنہگار،محشر:مرنے کے بعد حساب کتا ب کا دن

مرثیہ کےآخری دوبندوں میں دبیرؔ ارشاد فرماتے ہیں کہ اے مومنوں سنو امام حسین علیہ السلام کاسرِ مبارک جسم سےجُدا ہوگیا ہے یہ دن محشر کے دن سے کم نہیں آپ اس واقع پر آہ وزاری کروں۔ امام کا لاشہ مبارک زمیں پر تڑپ رہا ہےاور امام کا سرِ مبارک دشمنان اسلام اپنے تلوار پر اُٹھائے ہوئے ہیں بدبخت عمرخوشیاں منارہا ہے دوسری طرف امام نے تین بار تکبیر کہہ کر جامِ شہادت نوش کیا

پھرآخری بند میں دبیرّخود سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ اے دبیرؔ اب تو آگے کا حال بیان نہ کرنا کیوںکہ امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر ،آسمان پر بھی فرشتے ماتم کررہے ہیں اورفرشتوں کا سردار حضرتِ جبریل علیہ السلام خود آہ وبکا کررہا ہے او کہہ رہے کہ دومشرقوں کا سردار شہید ہوگیا ہےحضرت عابد رضی اللہ عنہ یتیم ہوگے ہیں اس طرح حضرتِ علی کرم اللہ تعالٰی عنہ کا خاندان بُری طرح سے لُٹ چکا ہےاب قیامت تک امام حیسن علیہ السلام حضرتِ زینب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جدا ہوگئے ہیں

(ہ) اس مرثیے میں استعمال کیےگئے کچھ قافیے قلمبند کیجیے؟

جواب:اس مرثیہ میں جو قافیے استعمال ہوئے ہیں وہ اس طرح سے ہیں

پہلے بند میں:

ملک۔۔۔پلک

ملک۔۔۔تلک

خدا۔۔۔۔نساء

دوسرے بند میں:

آ۔۔۔۔پلا

لگا۔۔۔تھرا

بڑھ۔۔۔۔چڑھ

تیسرے بند میں:

کیا۔۔۔دیا

کبریا۔۔۔لیا

چین۔۔۔حسین

چھوتھے بند میں:

رسالت۔۔۔۔امامت

حرمت۔۔۔عدالت

حیدر۔۔۔پیمبر

پانچویں بند میں:

نام۔۔۔الانام

تمام۔۔۔انتقال

تباہ۔۔۔ نگاہ

چٹھے بند میں:

اخا۔۔۔۔۔پا

جفا۔۔۔۔فدا

جان۔۔۔۔آن

ساتھویں بند میں:

اُمم۔۔۔۔قسم

دم۔۔۔ہم

ہٹ۔۔۔کٹ

آٹھویں بند میں:

محشر۔۔۔۔سرور

پر۔۔۔۔۔اطہر

روسیاہ۔۔۔۔۔۔شاہ

نویں بند میں:

بین۔۔۔۔شین

مشرقین۔۔۔۔حسین

اجڑ۔۔۔۔ بچھڑ

6۔۔درج ذیل الفاظ کی ضد صورتوں کو جملوں استعمال کیجئے

غضب، چین، تباہ، جفا، شور، جمال ،آخر

جواب:

غضب۔۔۔۔ کرم،رحمت

چین۔۔۔۔بے چین

تباہ۔۔۔آباد

جفا۔۔۔۔۔۔وفا

شور۔۔۔۔خاموش

جمال۔۔۔بے جمال

آخر۔۔۔۔۔اول


 



 

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے