12TH URDU NOTES/ BAHARISTANI URDU12TH/JK BOSE 12TH URDU/MIR ANEES JANG KE LIYEY AOUN WA MOHAMMAD KI RUKHSATI

 میر انیس جنگ کے لیے عوں ومحمد کی رخصت

(1)
فرمایا کہ "ہاں" جومجھے تقدیر دکھائے
جی جاؤں گی، مرکر جو وہ میدان سے آئے
کیوں شاہ سے رخصت کاسخن لب پہ نہ لائے
کیا جائیے کس فکر میں ہیں وہ مرے جائے
جو چاہیں کریں، بیٹوں کے قابل میں کہاں ہوں
اب وہ مرے فرزند،نہ میں دونوں کی ماں ہوں
سخن: بات، لب:ہونٹ،فرزند:بیٹے
مرثیہ کے اِس پہلے بند میں میرانیسؔ فرماتے ہیں کہ جب حضرتِ عوں ومحمد رضی اللہ تعالٰی عنھما کربلا میں دشمنا نِ اسلام سے لڑنےکے کیے نکلے توحضرتِ زینب رضی اللہ تعالٰی عنھا کہتی ہے میں بہت خوش ہوجاؤں گی اگر میرے یہ دونوں بیٹے اسلام کے کام آئے گئے اور دونوں شہید ہوجائے گے مگر دوسری طرف شکوہ کرتی ہے کہ میرے ان دونوں گلابوں کو کیا ہوگیا کہ انھوں نے اپنے ماما جان سے جنگ پر جانے کے لیے رخصت طلب نہ کی میں اس بات پر اُن دونوں سے سخت ناراض ہوں اب وہ جو چاہیے وہ کریں یہ میری ہی پرورش میں ہی کچھ کمی رہ گئی کہ ان دونوں نے امام عالی مقام سے اجازت نہیں لی اب وہ میرے لڑکے نہیں ہیں نہ میں اُن کی ماں ہوں اجازت نہ حاصل کرنا بہت بڑی بھول ہے
(2)
خیمے میں یہ باتیں تھیں کہ آگے وہ دیدار
دیکھا ک الگ بیٹھی ہوئی روتی ہے مادر
ساتھ اپنے انہیں لے گئی بانوئے مضطر
کی عرض کہ چھاتی سے لگا لو انہیں خواہر
یہ نورِ نظر لائق الطاف وعطا ہیں
تقصیر ہوئی کیا ، جوحضور ان سے خفا ہیں
مادر:ماں،  بانوئے:بیگم۔شہزادی،مضطر: بے قرار،خواہر:بہن،نورِنظر: بہت پیارا،الطاف:لطف کی جمع،عنایات،تقصیر:خطا،خفا:ناراض
میر انیسؔ فرماتے ہیں کہ جب یہ دونون شہزادے خیمہ کے اندر داخل ہوجا تے ہیں تو شہربانو ان دونوں گُلوں کو حضرتِ زینب رضی اللہ عنھا کے پاس لے جاتی ہے اورعرض کرتی ہے کہ یہ دونوں بیٹے پیارومحبت کرنے کے لائق ہیں انہیں آپ گلے سے لائیےان دونوں سے کیا خطا ہوگی ہے کہ آپ ان دونوں سے ناراض ہوگی ہو
(3)
مُنہ پھیر کے یہ کہنے لگیں شاہ کی ہمشیر
غیرت کی ہے جا، غیر توہوں فدیہ شبیر
منہ پھیریں وہ مقتل سے جوہوں صاحب شمشیر
شکوہ ہے مقدر کا کچھ ان کی نہیں تقصیر
انصاف تو کیجئے ، مجھے کیوں کرنہ گِلا ہو
وہ پہلے نہ بے دم  ہوں، لہو جن میں ملا ہو
ہمشیرہ: بہن،جا:مقام، فدیہ:وہ مال یا روپیہ جس سے کسی قیدی کو چھڑانے کےلیے دیا جائے،مقتل:قتل کرنے کی جگہ،گلہ:شکائت،لہو: خون،بے دم:خون
تشریح:
مرزا دبیرؔفرماتے ہیں کہ امام عالی مقام کی بہن حضرتِ زینب رضی اللہ تعالٰی عنھا منہ پھیر کے کہنے لگی کہ یہ عزت کا مُقام ہے کہ دوسرے لوگ امام کو فدیہ دیکر چھڑانے کی تودگ میں لگے ہیں مگراما م کے خاندان کے لوگ کیسے جنگ کے میدان میں پیچھے ہٹے گے جوجنگی حکمتوں سے خوب آشنا ہے۔ مگر مجھے اپنے تقدیر سے شکائت ہے اس میں ان کی کوئی خطا نہیں ہے آپ ہی انصاف کیجیے مجھے کیوں نہ گلہ ہو کیوں کہ سب سے پہلے وہ شہید ہونے چاہیے جن کا آپس میں خون کا رشتہ ہے 
(4)
 کیوں روتے ہیں؟ کیا سر سے مرے چھن گئی چادر
خالی ابھی ہونے دیں، محمدﷺ کا بھرا گھر
وقت آئے تو دکھائیں گے تلواروں کے جوہر
جراءت میں یہ جعفر ہیں، شجاعت میں حیدر 
جب کوئی نہ ہوئے گا، تویہ جنگ کریں گے
کیا عیب ہے پہلے نہ مرے بعد مریں گے
چھن گئی چادر:بیوہ ہونا
مرزا دبیرؔفرماتے ہیں کہ شہربانو کہنے لگی کہ اے حضرتِ زینب آپ کیوں روتی ہو۔کیا میرا شوہرشہیدگیا جو آپ روتی ہوابھی محمدﷺ کے اہل بیت سب زندہ ہیں آپ یاد رکھیں جب وقت آئے گا تو ہمارے خانداں کے سبھی افراد اپنے اپنے جنگی کرتب دکھائیں گے ہمارے یہ عون ومحمد رضی اللہ عنھما بڑے دلیر ہیں یہ دونوں جراءت میں حجضرتِ جعفر رضی اللہ تعالٰی عنھہ جیسے ہیں اورشجاعت میں حضرتِ علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے برابرہیں جب اہل بیت ایک با ایک میدان کربلا میں شہید ہوجائے گے توعون ومحمد رضی اللہ تعالٰی عنھا بھی میدان کربلا میں کود پڑے گے اس میں تعجب کی کیا بات ہیں ہم سب پہلے شہید ہوجائے یا بعد میں شہید ہوجائے گے بہرحال یہ زندگی اللہ کی دی ہوئی ہیں اس کو اُسی کوواپس لوٹا پڑے گا 
(5)
ماں کوتو سُبک کر چکے کنبے کی نظر میں
میں لٹ گئی اس رنج و مصیب کے سفرمیں
پوچھے کوئی ان سے کہ یہ کیوں آئے ہیں گھر میں
کھولیں انھیں باندھے جو ہیں ہتھیار کمر میں
فوجوں میں یہی طور تھے خالق کے اول ولی کے؟
لو، ناز ہے اس پر کہ نواسے ہیں علی کے
سُبک:شرمندہ ، خالق: پیداکرنے والا 
مرزا دبیرؔفرماتے ہیں کہ حضرتِ زینب کہتی ہے کہ اِن دونوں نے مجھے خاندان کی نظرمیں بہت نیچےگرادیا ہے حالانکہ میں اِس وقت بہت پریشان حال ہوں کیا کوئی ہے جو ان دونوں سے پوچھے آپ گھر کیوں واپس آئےہوطنزیہ انداز میں کہتی ہے کہ کوئی ہے جو اب ان دونوں کے جسموں سے بندھے ہتھیاروں کو کھولے ۔مجھے حیرت ہوتی ہے کہ یہ گھر کیوں واپس آگے کیا اللہ کے ولی حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے فوجیں ایسی ہوتی ہیں جومیدانِ جنگ میں شہید نہ ہوبس مجھے دوسری طرف اس بات پرخوشی ہے کہ یہ دونوں لال حضرتِ علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نواسے ہیں انھیں میدانِ کربلا سے نہیں ڈرنا چاہیے بلکہ شیروں کی طرح گرجنا چاہیے 

(6)
یہ ذکر تھا جو خیمے میں داخل ہوئے شبیر
دیکھا کہ ہیں بیٹوں سے خفا زینب دلگیر
فرمایا شکایت کے سخن کیجو نہ ہمشیر
ملتے ہیں کسے ایسے پسر صاحب توقیر
تلواروں میں ہر دم مرے قدموں پہ جھکے تھے
یہ شہرِ دلا ور مرے روکے سے رُکے تھے
سخن: بات چیت،توقیر: عزت،دلگیر:غمگین
مرزا دبیرُ فرماتےہیں کہ جب امام عالی مقام خیمہ کے اندر داخل ہوگئے تودیکھا کہ حضرتِ زینب رضی اللہ تعالٰی عنھا اپنے دونوں بیٹوں حضرت عون ومحمد رضی اللہ تعالٰی عنھما سے ناراض دکھ رہی تھیں جس پر امام نے کہا کہ ان دونوں سے آپ ناراض نہ ہونا بلکہ ان دونوں پر فخر کیجیےاتنے پیارے اور اچھے بیٹے کسی خوش نصیب ماں وباپ کو ہی ملتےہیں یہ دونوں صاحب زادے ہر وقت کربلا کے میدان میں جانے کے بڑے بے تاب تھے اور مجھ سے جنگ پر جانے کی اجازت مانگ رہے تھے یہ دونوں بڑے بہادر ہیں میرے روکنے سے رُک گئے ورنہ انھوں نے کب کا جنگ میں حصہ لے لیا ہوتا
(7)
زینب نے کہا"آپ الم ان کا نہ کیجیے
طالب ہیں تو بہتر ہے اجازت انھیں دیجیے
قربان ہیں سب، بھانجے ہوں یا کہ بھتیجے
گر دھیان ہے میراِ توقسم رونے کی لیجیے
بیٹے بھی فدا آپ پہ ہیںِ میں بھی فدا ہوں
دیر اتنی ہوئی کیوں، میں اسی پر تو خفا ہوں
(8)
تھرا کے وہ بولے کہ "ہماری نہیں تقصیر
قسمت میں خجالت تھی، نہ یاور ہوئی تقدیر
فرمایا "شجاعت کے منافی ہے یہ تقریر
مسلم کے پسردوست کو آقا نےنہ روکا
جاتے ہوئے کس دوست کو آقا نے نہ روکا
روکا تمھیں اُن کو شہِ والا نے نہ روکا
(9)
جومرد ہیں پہلے وہی مرجاتے ہیں یارو
آزردہ تھی، پرخیر میں اب خوش ہوں سدھارو
صدقے، گئی، اُلجھی ہوئی زلفیں تو سنوارو
واری یہ تمنا ہےکہ سرماموں پہ وارو
سردے کے جسےپاتے ہیں، وہ راہ یہی ہے
صدقے گئی، شادی ہے یہی بیاہ یہی ہے
(10)
پوشاک بدل کر جوسجے جنگ کے ہتھیار
غل تھا کہ چلے شاہ کی ہمشیر کے دلدار
مجرے کو جھکے ماں کے، جو وہ آئینہ رخسار
سینے میں تڑپنے لگا زینب کا دل زار
فرمایا" ادا سر سےکروحق شہِ دیں کا"
لو، جاؤ، مبارک ہو سفر خلدِ بریں کا
(11)
اعدا کو مرے دودھ کی تاثیر دکھانا
دادا کی طرح جوہر شمشیر دکھانا
اجلال ِ حسن ، شوکتِ شبیر کھانا
تن تن کے یَدُ اللہ کی تصویر دکھانا
نیزوں سے جوانوں کےجگر توڑ کے آنا
خیبر کی طرح کُوفے کا در توڑ کے آنا
(12)
نیزوں کی طرف چھاتیاں تانے ہوئے جانا
ہاں، نیزوں کی بارش میں سپر منہ پرنہ لانا
ہنس ہنس کے ، میں قربان گئی ، بر چھیاٰں کھانا
لازم ہے وہ ہمت کہ مُعرف ہو زمانا
اس جنگ کاچرچا سحروشام رہے گا
دنیا میں اگر تم نہ رہے ، نام رہے گا
(13)
میلے نہ ہوں تیور یہ سپاہی کے ہنرہیں
جس کے ہیں ، بس اس کے ہیں ، جدھرہیں ، بس اُدھر ہیں
کہ عطر میں ڈوبے ہیں، گہے خون میں ترہیں
صحبت میں مصاحب ہیں، لڑائی میں سپر ہیں
وہ اور کسی سے نہ جھکیں گے نہ جھکے ہیں
عزت میں نہ فرق آئے کہ سربیچ چکے ہیں
(14)
دریا کی طرف پیاس میں تکتے نہیں غازی
گرشیر بھی جھپٹے ،تو سرکتے نہیں غازی
تلواروں میں آنکھوں کو جھپکتے نہیں غازی
بجلی بھی گرے گر، تو جھجکتے نہیں غازی
دم ہونٹوں پہ آئے تو شجاعت نہیں جاتی
مرنے پہ بھی چہرے کی بشاست نہیں جاتی
(15)
خندق کی لڑائی کی طرح جنگ کوجھیلو
بچے اس للہ کے ہو، جان پہ کھیلو
تیغون میں دھنسو، چھاتیوں سے نیزوں کو ریلو
کوفے کوتَہِ تیغ کرو، شام کو لے لو
دو اور جِِلا آئینہ تیغِ عرب کو
لوروم کو قبضے میں، توقابو میں حلب کو
(16)
جان ہونٹوں پر آجائے گر پیاس کےمارے
غش کھاکے جو گریوبھی تو دریا سے کنارے
پانی کوترستے رفقاء مرگئے سارے
یہ آبِ رواں بند ہے ماموں پہ تمھارے
تلواریں ہیں ، موجوں کی روانی نہ سمجھنا
دریا ہے لہو کا، اسے پانی نہ سمجھنا
(17)
کی عرض"یہی ہوئے گا اے مادرِ غم خوار
کیا بات ہے جیتے ہیں، تومرنا نہیں دُشوار
اس پیاس میں صابر ہیں، غلامانِ وفادار
دریا کو نظر بھر کے جو دیکھیں تو گہنگار
دیجیے گا سزا فرق اطاعت میں گر آئے
پھر دیکھیں نہ منہ آپ جورخ تک سپر آئیے

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے