DUNIYA KI NAPAYEDARI NAWAB MERZA SHOUQ/دنیا کی ناپائیداری نواب مرزا شوق

 دنیا کی ناپائیداری ( نواب مرزا شوقؔ)

سوال:مثنوی کسے کہتے ہیں؟

جواب: مثنوی عربی لفظ مثنٰی سے موحوذ ہے جس کے معنی دو کے ہیں لیکن شعری اصطلاح میں مثنوی اس کلام کو کہتے ہیں جس کے ہر شعر کے دونوں مصرعےہم قافیہ ہوتے ہیں اور ہر شعر کا قافیہ بقیہ اشعار کے قافیےسے مختلف ہوتا ہے مثنوی میں ردیف کی کوئی پابندی نہیں ہوتی ہےالبتہ مثنوی کے تمام اشعارایک ہی بحر میں ہوتے ہیں اس میں اشعار کی کوئی حد مقررنہیں ہےعام طور پر مثنوی طویل نظم ہوتی ہے اس میں عاشقی یا جنگ کے علاوہ صوفیانہ اور فلسفیانہ موضوعات بیان کئے جاتے ہیں مثنوی کے لئے یہ بات اہم ہے کہ سب سے پہلے حمد لکھی جائے اور کے بعد اصلی مقصد بیان کیا جائےاُردُو میں مثنوی کے لئے سات بحر یں مقرر ہیں قصیدہ اورغزل کی طرح اس میں قافیے کی پابندی نہیں۔ اس میں رزم و بزم ،داستانِ حسن و عشق ،تصوف وفلسفہ غرض ہر قسم کے مضامیں آجاتے ہیں

سوال: نواب مرزا شوقؔ کی حیات پر ایک نوٹ لکھیئے؟

جواب: حالاتِ زندگی:اُردو کےمشہورومعروف شاعرنواب مرزا شوقؔ لکھنوی کی پیدائش لکھنو اترپردیش میں6جنوری 1773ء میں ایک معززگھرانے میں ہوئی آپ کا اصلی نام تصدق حسین خان،نواب مرزا عرفیت،پیشہ حکیم اور تخلص شوقؔ تھا والد صاحب کا اسمی گرامی آغا علی خان تھاآپ کا خاندان حکیموں کا خاندان تھا آپ کےوالد،چچا ،دادا وغرہ سب مشہورحکیم تھےآپ نے بھی اپنی تعلیمی تربیت حاصل کرنے کے بعد یہی خاندانی پیشہ اختیارکیا اپنی قابلیت کی وجہ سےاس پیشےمیں بہت نام کمایااردوزبان وادب میں اپنی تین مثنویان ،فریبِ عشق،بہارعشق اور زہرعشق کی وجہ سے زبردست مشہور ہوئےباآخر اس فانی دنیا سے 30 جون 1871ء میں لکھنو کی سرزپر وفات پاگئے
دنیا کی ناپائیداری
دنیا کی ناپیداری مرزاشوق کی لکھی ہوئی ایک کامیاب مثنوی "زہرعشق" سے موحوذ ہے دراصل یہ مثنوی کا آخری حصہ ہےجس میں دنیا کی بے ثباتی کو نہائت موثر انداز میں شوقؔ نے بیان کیا
جائے عبرت سرائے فانی ہے
موردِ مرگ ناگہانی ہے
جائے عبرت: عبرت یا نصیحت پکڑنے کی جگہ ،سرائے فانی: فنا یا ختم ہونے والی جگہ، موردِ مرگ : مرنےکی جگہ ،ناگہانی: اچانک
مرزا شوق مثنوی کےاس شعر میں فرماتے ہیں کہ یہ دنیا فنا ہونے والی جگہ ہے اور یہ دنیا عبرت حاصل کرنے کی جگہ ہے یہاں انسان کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے کبھی بھی ایک انسان کو موت آسکتی ہے
اونچے اونچے مکان تھے جن کے
آج وہ تنگ گور میں ہیں پڑے
گور: قبر
مثنوی کے اس شعر میں مرزا شوق اپنی مہ جبیں کے ذریعے کہلواتا ہے کہ اس دنیا میں جن لوگوں کے اونچے اور بڑے مکان تھے ہائے افسوس آج اُ ن کا ٹھکانہ قبر کی گہری ،تنگ وتاریک جگہ ہے
کل جہاں پر شگوفے وگُل تھے
آج دیکھا توخار بالکل تھے
مرزا شوق فرماتے ہیں کہ اس دنیا میں کل تک جہاں پھول وکلیاں کھلتی تھیں آج افسوس وہاں خار دار درخت اُگ آئے ہیں
جس چمن میں تھا بلبلوں کا ہجوم
آج اس جا ہے آشیانہ بوم
ہجوم: بھیڑ ، آشیانہ ِ: گھر۔گھونسلہ ، بوم: اُلو
مرزا شوق مثنوی کے اس شعر میں ارشاد فرماتے ہیں کہ جن گلستانوں میں کل تک بلبل چہکتے تھے آج وہ گلستان برباد ہوچکے ہیں اور وہاں آج الو ڈھیرے لگا ئےہوئے بیٹھے ہیں
بات کل کی ہے نوجوان تھے جو
صاحبِ نوبت ونشان تھے جو
نوبت: باری
مثنوی کے اس شعر میں شوقؔ فرماتے ہیں کہ کل تک جن نوجوانوں کی نواجونی کی باتیں کی جاتی تھی اور ان کی مثالیں دی جاتی تھیں آفسوس ان کی جوانیاں بھی ڈھل گئیں ہیں اور وہ بھی موت کی آغوش میں چلے گئے ہیں
آج خود ہیں نہ ہے مکان باقی
نام کو بھی نہیں نشاں باقی
شوقؔ اس مثنوی کے شعر میں ارشاد فرماتے  ہیں کہ کل تک جن لوگوں کے نام عزت واحترام کے ساتھ لئے جاتے تھے اور ان کے اپنے اپنے محل ومکانات رہنے بسنے کے لئے تھے آج اُن کا کوئی نام لینا والا نہیں ہے اور نہ ہی ان کے رہنے کی جگہیں باقی رہی ہیں
غیرت حُور مہ جبیں نہ رہے
ہیں مکاں گر تو وہ مکیں نہ رہے
حُور:پری ،مہ جبیں :چاند جیسا  چہرہ رکھنے والے ،مکین: مکانوں میں رہنے والے
اس مثنوی کے شعر میں شوقؔ فرماتے ہیں کہ ہاے افسوس وہ خوبصورت چہرے جن کہ خوبصورتی پرچاند بھی حسد کرتا تھا وہ بھی مرکےمٹی ہوگئےآج اُن کے مکان اگرچہ موجودہے مگران میں رہنے والے وہ لوگ اِن کو چھوڑ کرسدا کےچلے گئے ہیں
جو کہ تھے بادشاہ ہفت اقلیم
ہوئے جاجا کے زیرِخاک مقیم
ہفت اقلیم:زمین کے سار حصے۔کُل دنیا ، زیرِ خاک :زمین کےنیچے ،مقیم: ٹھہرے ہوتے
شوقؔ اس مثنوی کےشعر میں فرماتے ہیں وہ بادشاہ جن کی بادشاہت پورے جہاں پر تھی اُنھیں بھی مرکے صرف دوگز قبر کی زمیں ہی نصیب ہوپائی ہے
کوئی لیتا نہیں اب اس کا نام
کون سی گورمیں گیا بہرام
گور : قبر، بہرام : ایران کا ایک بڑا بادشاہ
اس مثنوی کے شعر میں شوقؔ فرماتے ہیں کہ سرزمین ملکِ ایران کا ایک بہت بڑا بادشاہ پیدا ہوا تھا جس کا نام بہرام تھا اپنے دور میں اس کے چرچے ہر سوں اطراف میں تھے وہ بھی مر کے قبر میں دفن کیا گیا اب یہاں اس دینا میں اُ س کا کوئی نام لینے والا نہیں رہا ہے
اب نہ رستم نہ سام باقی ہے 
اک فقط اُن کا نام باقی ہے
رستم اورسام: ایران کے دو بڑے پہلوانوں کے نام
شوقؔ مثنوی کے اس شعر میں ارشار فرماتے ہیں کہ ایران کے وہ پہلوان جن کے اسمی گرامی رستم ارو سام تھے وہ بھی مر گئے ہیں آج صرف ان کے نام دنیا میں باقی رہےہیں
کل جو رکھتے تھے اپنے فرق پہ تاج
آج ہیں فاتحہ کو وہ محتاج
فرق: سر
شوقؔ مثنوی کے اس شعر میں فرماتے ہیں کہ کل تک جو وہ لوگ اپنے سروں پر تاج سجاتے تھے افسوس آج کا کوئی فاتحہ پڑھنے والا بھی باقی نہ رہا ہے
تھے جو خود سرجہاں میں مشہور
خاک میں مل گیا سب ان کا غرور
خود سر:گھمنڈی
اس شعر میں شوقؔ ارشاد فرماتے ہیں کہ وہ لوگ جو اپنےگھمنڈ و غرور کی وجہ سے اس دنیا میں بڑے مشہور تھے افسوس وہ بھی اُن کو بھی یہ دنیا چھوڑنا پڑا اور اُ ن کا ہو غرور بھی مرکے مٹی میں مل گیا
عطرمٹی کاجونہ ملتے تھے
نہ کبھی دھوپ میں نکلتے تھے
شوق ؔ اس مثنوی کے شعر میں فرماتےہیں کہ اِ س دنیا میں ایسے حسین وجمیل لوگ بھی پیداہوئے ہیں کہ جن کو مٹی کی خوشبو سے بھی ضد تھی اوراپنے جسموں پر  بہت عُمدہ عُمدہ خوشبوئے ملتے تھے وہ بھی اس دنیا کو چھوڑ کےچلے گئے
گردش چرخ سے ہلاک ہوئے
استخواں تک بھی ان کے خاک ہوئے
گردشِِ چرخ: زمانے کی تبدیلی، آسماں، استخواں: ہڑی ، خاک: مٹی
اس مثنوی کے شعر میں شوقؔ ارشاد فرماتے ہیں کہ آج تک اِس دنیا میں جتنے چھوٹے بڑے لوگ پیدا ہوئے ہیں وہ سب ایک ایک کر کے مر کے چلے گئے اب زمانے نے ایسی گردش ماری کہ اُ ن کے جسموں کی ہڑیاں سڑ کے خاک سے مل کے سور ہوگئی
تھے جومشہور قیصر و مغفور 
باقی ان کے نہیں نشانِ قبور
قیصر: روم کا بادشاہ ، مغفور: قدیم چینی بادشاہوں کا لقب
اس شعرمیں شوقؔ ارشاد فرماتےہیں کہ قیصر و مغفور جو دنیاکے بڑے باشاہ تھے وہ بھی مر کے اس دنیا سے چلے گئے ہیں مگر افسوس آج اُ ن کے قبروں کے نشان کہیں باقی نہ رہے
تاج میں جن کے ٹکتے تھے گوہر
ٹھوکریں کھاتے ہیں وہ کاسہ سر
گوہر: موتی
شوقؔ اس مثنوی کے شعر میں فرماتے ہیں کہ وہ لوگ جن کے سروں پر تاج موتیوں سے سجائے جاتے تھے آج اُن کے سر کی کھوپڑیاں ٹھوکریں کھا رہے ہیں
رشکِ یوسف جوتھے جہاں میں حسیں
کھا گئے ان کو آسمان وزمیں
رشک: حسد ۔ وہ آرزوجو دوسرے کو حاصل ہے وہ مجھے بھی مل جائے
اس مثنوی کے شعرمیں شوقؔ ارشاد فرماتے ہیں کہ اس جہاں میں حضرت یوسف علیہ السلام جیسے بہت حسین وجمیل لوگ پیدا ہوئے افسوں وہ بھی مر کے مٹی ہوگئے
ہر گھڑی منقلب زمانہ ہے 
یہی دُنیا کا کارخانہ ہے
منقلب: تبدیل ہونے والا
شوقؔ اس مثنوی کے شعر میں فرماتے ہیں کہ یہ دُنیا ہر وقت بدلتی رہتی ہے یہاں ہرچیزفانی ہے
سوالات 
1.سرائے فانی سے کیا مراد ہے؟
جواب:سرائے فانی سے مراد ختم یا فنا ہونے والی دُنیا کے ہیں
2. رشک یوسف علیہ السلام سے کیا مراد ہے؟
جواب : کہا جاتے ہے اللہ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو اتنا حسین وجمیل پیدا کیا تھا کہ ہر زمانےمیں  لوگ اُ س کے حسن پر رشک کرتے رہے
3.دُنیا کی  ناپائیداری پرپانچ جملے قلمبد کیجئے؟
جواب:
  1. دنیا ازلی نہیں ہے
  2. دنیا کی ہر شے ختم ہونے والی ہے
  3. دینا ایک سرائے فانی کے مانند ہے
  4. دینا کی ہرچیزعارضی ہے
  5. دنیا بھی ایک دن فنا ہونے والی ہے














ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے