LATRI KA TICKET/URDU 9TH/URDU9TH,لاٹری کا ٹکٹ،شوکت تھانوی

 لاٹری کا ٹکٹ، شوکت تھانوی

سوالات:
1۔۔۔سوال:منشی جی کو کس کا انتظارتھا؟
جواب:منشی جی کو لاٹری کے انعام کے تار کا انتظار تھا
2۔۔۔سوال:منشی جی کیا منصوبے باندھ رہے تھے؟
جواب:منشی جی کوٹھی،موٹرکارخریدنے،بیٹے کوایک اچھےانگریزی اسکول میں پڑھانے اور گھرمیں باورچی رکھنے کا منصوبے بنائے رکھا تھا 
3۔۔ڈاکیہ کیا پیغام لایا؟
جواب:ڈاکیہ نے محمود بھائی کاتارلایا تھا جس میں لکھاتھا کہ کل شام بھابی جان نے انتقال فرمایا
4۔۔سوال: ڈراما "لاٹری کاٹکٹ" کی پوری کہانی اپنے الفاظ میں لکھیے؟
جواب:" لاٹری کا ٹکٹ" شوکت تھانوی کا ایک تحریرکردہ بہترین مزاحیہ ڈراما ہے اس ڈرامے میں تین اہم کردارہیں جن  میں منشی جی ، اُس کی بیوی اورسلیم ہوتا ہے ڈرامے کی کہانی اس طرح شروع ہوتی ہے منشی جی کی بیوی چھولہا پھونک رہی ہوتی ہے منشی جی بیوی کو کہتا ہے لاٹری کا ٹکٹ ڈھونڈ کر لادیجیے آج 17 تاریخ ہے آج لاٹری کے کھولنےکادن ہے مجھے یقین ہے کہ آج میرے ہی نام پر لاٹری نکلے گی اسی دوران سلیم وارد مکان ہوتا ہے منشی جی پوچھتا ہے کیا تم نے راستے میں کہیں ڈاکیہ لال سائیکل پر دیکھا اس پر سلیم کہتاہے نہیں خیریت ہے اس پر منشی کہتا ہے لاٹری کا کھولنے کا دن ہے جوں ہی میرے نام کی لاٹری لگے گی میں ان پیسوں سے ایک کوٹھی ایک موٹر کارخرید لوں گا اوراپنے بیٹے کو ایک انگریزی اسکول میں داخلہ کرواؤں گا گھر میں کھانے پکانے کے لیے عمدہ باورچی رکھوں گا اس اثنا میں تار آجاتا ہے اس میں لکھا ہواہوتا ہے کہ بھابی جان کا انتقال ہوا گیا ہے اس پر منشی جی کی ساری کی ساری خوشیاں ماتم میں تبدیل جاتی ہیں اس کے ساتھ ڈرامے کاخاتمہ ہوجاتا ہے کہتے ہیں" ڈھونڈا تھا خدا مل گیا نا خدا "
سوال: ان کرداروں پر مختصرنوٹ لکھیے
  1. منشی جی
  2. سلیم
  3. ڈاکیہ
۔منشی جی: ڈرامہ " لاٹری کا ٹکٹ " میں منشی جی ایک مرکزی کردار کی اہمیت رکھتے ہیں وہ ایک نا سجھ قسم کا انسان ہوتا ہے لاٹری کا ٹکٹ خریدتے ہی ذہن میں خیالی پلواو پکانے لگا کئی منصوبے ذہن میں تیار رکھے بنا محنت کے امیربننا چاہتا تھا
2۔۔سلیم:
سلیم بھی اس ڈرامے میں ایک اہم کردار نبھارہے ہیں وہ منشی جی کی طرح دقیانوسی باتوں پر یقین نہیں کرتا ہے ڈرامےاسی کردار کے ذریعے آگے بڑھتا ہے اور جب ڈاکیہ تار لاتا ہے سلیم اس تار کو پڑھتا ہے اور اسی کے ساتھ ڈرامے کا خاتمہ ہوجاتا ہے
3۔۔ڈاکیہ: 
ڈاکیہ اس ڈرامے میں کوئی بڑا کردار نہیں نبھا رہے ہیں وہ پورے ڈرامے میں صرف ایک بار نظر آتے ہیں جب وہ منشی جی کے گھر تار لاتاہے کوئی بات ڈرامے میں نہیں کرتا ہے 

  گرائمر

صفت:
وہ کلمہ جو کسی چیز یا شخص کی  ذاتی حالت یا کیفیت کو ظاہر کرتی ہے صفت کہلاتی ہے جیسے سچا، جھوٹا، سُرخ ،سفید وغیرہ
اسمِ موصوف: 
جس اسم کی صفت بیان کی  جائے اسے اسمِ موصوف کہتے ہیں جیسے اچھا لڑکا، ٹھنڈا گوشت، خوبصورت لڑکی وغیرہ
ان مثالوں میں لڑکا، گوشت، لڑکی اسمِ موصوف ہیں اور اچھا، ٹھنڈا، خوبصورت اسمِ صفت ہیں
ذاتی صفت کے تین (03) درجے ہیں
1۔۔تفصیلِ نفسی:
وہ درجہ صفت ہےجس میں کسی چیز کی ذاتی ٖفضیلت بلا مقابلہ ظاہرہوتی ہو مثلاََ زاہدنیک ہے
2۔۔تفصیل بعض:
وہ درجہ صفت ہے جس ایک چیز کو دوسری چیز پر ترجیح دی جائے مثلاََ میرا جوتا تمہارے جوتے سے بہتر ہے
تفصیل کُل:
وہ درجہ صفت ہےجس میں کسی چیز کو کسی چیز کو اُسی جیسی تمام چیزوں پرترجیح دی جائے جیسے ہمالیہ سب پہاڑوں سے اُونچا ہے
سوال: درجہ ذیل جملوں میں سے صفت ذاتی  کے تین درجے تلاش کیجیئے
محمد اکرم ذہین طالب علم ہے محمداسلم محمداکرم سے بھی زیادہ ذہین ہے لیکن محمد اشرف سارے طالب علموں سے زیادہ ذہین ہے وہ کلاس کا منیٹربھی ہے کوکرناگ اچھی جگہ ہے پہلگام اس سے بھی بہتر ہے گُلمرگ بہترین جگہ ہے
جواب:
محمد اکرم ذہین طالب علم ہے(تفصیلِ نفسی)
محمد اسلم اکرم سے بھی زیادہ ذہین ہے(تفصیلِ بعض)
لیکن محمد اشرف سارے طالب علموں سے زیادہ ذہین ہے( تفصیلِ بعض)
وہ کلاس کا منیٹر بھی ہے( تفصیلِ نفسی)
کوکرناگ اچھی جگہ ہے(تفصیلِ نفسی)
پہلگام اس سے بھی بہتر ہے(تفصیلِ بعض)
گلمرگ بہترین جگہ ہے( تفصیلِ نفسی)
سوال منددجہ ذیل الفاظ کو اس طرح جملوں میں استعمال کیجیئے کہ تذکیروتانیث واضح ہوجائے 
بات، تار، دوڑ، دولت، چاند، انعام
جواب
الفاظ۔۔۔۔۔۔جملے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تذکرہ تانیث
بات۔۔۔۔۔۔سچی بات کڑوی لگتی ہے۔۔۔۔مونث
تار۔۔۔۔۔ڈاکیہ نے تار لایا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔مونث
دوڑ۔۔۔۔۔احمددوڑرہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔مذکر
دولت۔۔۔۔دولت آتی ہے جاتی ہے۔۔۔۔۔مونث
چاند۔۔۔آج میں نے چاند دیکھا ہے۔۔۔مونث
انعام۔۔۔مجھے ہیڈماسٹرمے انعام دیا۔۔۔مذکر
سوال: شوکت تھانوی کی حیات اور ادبی کارناموں پرایک روشنی ڈالیے؟
شوکت تھانوی SHOWKAT TANVI
جواب: حیات:شوکت تھانوی کا اصلی نام محمدعمر تھا آپ کی ولادت بندرابن ضلع متھرا میں 2فروری 1904ء میں ہوئی آبائی وطن تھانہ بھون مظفرنگرتھا اوراسی نسبت سے تھانوی کہلاتے رہے بہت عرصے تک لکھنو میں مقیم رہے قیام پاکستا ن کے بعد پاکستان چلے گئے پہلے کراچی پھر راولپنڈی میں مقیم ہوئے اوریہاں پاکستان میں روزنامہ جنگ کے مدیرمقرر ہوئے آپ کا انتقال 4 مئی 1963ء لاہور میں ہوااور میاں میر کے قبرستان میں سپرد خاک کیے گئے
ادبی خدمات:شوکت تھانوی ایک نامورمزاح نگار،شاعر، اور ایک بہت اچھے صحافی گزرے ہیں روز نامہ جنگ میں آپ کے جو مضمون چھپتے تھے لوگ اُنھیں بہت پسند کرتے تھے آپ کی کئی تصنیفات اب تک چھپ چکی ہیں جن میں،تبسم ،بحرتبسم،دنیائے تبسم،برق تبسم،سیلاب تبسم،سودیشی ریل، وغیرہ قابل ذکر ہیں اس کے علاوہ ان کی اپنی خودنوشت سوانح، مابدولت بھی منظرعام پرآچکی ہے ساتھ ہی ساتھ خاکوں کا ایک مجموعہ ،شیش محل بھی چھپ چکا ہے
سوال: ڈراما کیا ہے ؟
جواب: ڈراما دراصل یونانی زبان "ڈراو" سے مشتق ہے جس کے معنی "کرنا"یا " کرکے دکھانا" کے ہیں لیکن ادب میں ایک ایسی صنف کو کہتے ہیں جس میں مکالموں،کرداروں اور مناظر کے ذریعے کسی کہا نی کو پیش کیا جاتا ہے ڈرامہ کا مطلب ہی عمل یا ایکشن ہوتا ہے ارسطو کےمطابق ڈرامہ زندگی کی ایسی نقل ہے جواداکاروں کےذریعے دیکھنے والوں کے سامنے پیش کی جاتی ہے کہتے ہیں
"DRAMA IS COPY OF LIFE, A MIRROR OF CUSTOM,A REFLECGTION OF  TRUTH"
"ڈراما زندگی کی نقل ،رسم ورواج کا آئینہ اور سچائی کا عکس ہے"
ارسطو نے ڈرامے کے لیے چھ اجزائے ترکیبی وضع کئے ہیں جن میں ، پلاٹ، کردار، ، مکالمہ ،زبان،موسقی اورآرائش شامل ہیں 
اردو میں ڈرامے کا آغاز1824ء میں واجد علی شاہ کے زمانےمیں ہوا جب "رادھاکنھیا" کا قصہ اسٹیج کیاجانے لگا اس کے بعد امانت لکھنوی نے "اندرسبھا" لکھ کر اردوڈرامے کے لیے ترقی کی راہیں ہموار کردی اردو کے مشہور ڈرامہ نگاروں میں کرشن چندر، منٹو،بیدی، وغرہ شامل ہیں






ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے